Monday, July 25, 2011

جنگِ پٹرول کے سپاہی جانے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: عظیم سرور

ٹی وی پروگرام میں سابق سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ بتا رہے تھے جب سوویت یونین کی فوجیں افغانستان سے واپس جانے لگیں تو ہم اور امریکہ دونوں یہ سمجھ رہے تھے کہ اب شکست خوردہ سوویت یونین خاموش ہو کر بیٹھ جائے گا اور اس کی فوج شکست کے زخم چاٹتی رہے گی۔ نہ ہمارے وہم و گمان میں یہ بات تھی اور نہ ہی امریکہ کے خواب و خیال میں تھا کہ سوویت یونین ایک ماہ کے اندر ہی ٹوٹ جائے گا۔ سوویت یونین کے سپاہی واپس گئے اور صدر گورباچوف نے اعلان کر دیا کہ ہماری معیشت بیٹھ گئی ہے اور ہم اتنا بڑا ملک نہیں چلا سکتے … اب جو امریکی سپاہیوں کی واپسی شروع ہوئی ہے تو کیا اس کے بعد کے واقعات کا تذکرہ کچھ سال بعد کسی ٹی وی پروگرام میں موجودہ سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر جو اس وقت ریٹائر ہوچکے ہوں گے اسی طرح کر رہے ہوں گے کہ ہمارے تو وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ …
امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ جولائی میں اس کے دس ہزار سپاہی واپس جائیں گے۔ پھر اگلے سال 33 ہزار۔ پھر باقی بعد میں۔ لیکن یہ 10 ہزار سپاہی جو اپنے ساتھ شکست لے کر جا رہے ہیں امریکہ کی سیاسی حیثیت اور معاشرے کو کیا پیغام دیں گے؟ شکست خوردہ جسم، ٹوٹا ہوا جسم ہوتا ہے اور ایٹم بم کی تھیوری ہے کہ جب ایک ایٹم ٹوٹتا ہے تو پھر وہ ہر چیز کے ایٹمز کو توڑتا چلا جاتا ہے۔ دس ہزار پسپا سپاہی اپنے جسم کے ایٹمز سے کس قسم کا پیغام دیں گے؟
امریکہ نے 21 ویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی جس جنگ کا آغاز کیا اس کو اس نے ”وار آن ٹیرر“ کا نام دیا۔ لیکن اس جنگ پر غور کیا جائے تو یہ ”پیٹرول کی جنگ“ ہے۔ وسط ایشیاء کے ملکوں میں پیٹرول کے ذخائر پوری دنیا کے 120 سال کی ضرورت پوری کرسکتے ہیں۔ اس پیٹرول کو دنیا تک لے جانے کے لئے افغانستان کی سرزمین اور بلوچستان کی بندرگاہ کی ضرورت ہے۔ پہلے سوویت یونین نے ان ملکوں پر قبضہ کیا پھر اس پیٹرول کو دنیا تک پہنچانے کے لئے افغانستان میں کام کیا۔ ہزاروں نوجوانوں کو ماسکو کے کالجوں میں کمیونزم کی تعلیم دی۔ افغانستان میں خلق اور پرچم پارٹیاں قائم کیں۔ بلوچستان کے سرداروں کو قوم پرستی کی راہ پر ڈالا، نوجوانوں کو سوشلزم کا سبق پڑھایا۔ پھر جب اس نے آخری وار کیا اور فوجیں افغانستان میں اتاریں تو افغانستان کے عوام نے ان کی مزاحمت کی۔ تین چار سال کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک افغانی عوام کے حمایتی بن گئے اور ان کی ہر طرح سے امداد کرنے لگے … سوویت یونین جنگ پیٹرول میں شکست کھا کر ٹوٹ گیا تو امریکہ نے اس جنگ کو جیتنے کے مشن کا آغاز کر دیا۔ نیویارک کی شیئر مارکیٹ کے قریب واقع عمارت کو گرا کر افغانستان پر حملہ آور ہونے کا جواز پیدا کیا گیا۔ امریکہ کا خیال تھا کہ وہ چند ہفتوں میں یہ جنگ جیت لے گا اور ایک آدھ سال بعد وسط ایشیاء کا پیٹرول پاکستان کی بندرگاہوں کے ذریعے دنیا بھر کو سپلائی کرنے لگے گا۔ یوں اس کی معیشت سنبھل جائے گی اور وہ پوری مسلم دنیا کو صحیح معنوں میں زیرنگیں کر لے گا۔ عراق اور لیبیا کا پیٹرول بھی اس کی جنگ میں شامل تھا لیکن افغانستان کے عوام نے دس سال تک امریکہ کو افغانستان میں ایک انچ پائپ لائن ڈالنے کا موقع بھی نہ دیا۔ اس جنگ پیٹرول نے امریکہ کی معیشت کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کو چھپانے کے لئے امریکہ کبھی جولائی کاوعدہ، کبھی 2012ء کے پلان کا ذکر کرتا رہا۔ لیکن اس کے سارے منصوبے، افغان عوام کی مزاحمت نے ناکام کر دیئے۔
الف لیلیٰ کی کہانیوں میں ایک چشمہ آب حیات تھا۔ لوگ دور دور سے اس چشمے سے سیراب ہونے کے لئے آتے تھے لیکن اس کے قریب پہنچتے پہنچتے ہڈیوں کا ڈھیر بن جاتے تھے۔ ویسٹ ایشیا کے پیٹرول کے ذخائر آب حیات کا چشمہ ہی ہے کہ اس کی طلب میں آنے والے ہڈیوں کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔امریکہ کے سپاہی جا رہے ہیں … جانے والے سپاہی سے کوئی پوچھے تو کیا لے کر جا رہا ہے … یہ بتا تجھے نہتے عوام پر گولیاں برساتے ہوئے کیسا لگا تھا؟ تو نے باراتوں پر اور دیہات پربمباری کی تو کیا محسوس کیا تھا؟ تو نے ایک نہتی، مظلوم، بے گناہ بیٹی عافیہ صدیقی پر ظلم توڑے تو تجھے کسی انسانی قدر کا خیال آیا تھا یا نہیں؟ تو نے جب نہتے عوام کو کنٹینروں میں بند کر کے ہلاک کر دیا تو اپنے آپ کو کیا سمجھ رہا تھا؟ اور اب جو شکست کھا کر واپسی ہو رہی ہے تو کیسا لگ رہا ہے؟ جانے والے سپاہی افغانستان سے گئے تو وہاں کوئی میڈیا نہ تھا، کوئی اخبار نویس نہ تھا ورنہ کوئی تو اس کو یہ ضرور کہہ دیتا ”جانے والے سپاہی! اپنا پیغام امریکہ کے ایک ایک ذرے کو پہنچانا“۔